This verse is from Surah Al-Baqarah (2:11) in the Quran. Here is the translation and explanation: Arabic: وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُف...
This verse is from Surah Al-Baqarah (2:11) in the Quran. Here is the translation and explanation:
Arabic:
وَإِذَا
قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ قَالُوٓا۟ إِنَّمَا نَحْنُ
مُصْلِحُونَ
Translation
(Sahih International):
"And when it is said to them,
'Do not cause corruption on the earth,' they say, 'We are but reformers.'"
Explanation:
This verse addresses the hypocrites
and those who claim to be righteous while engaging in actions that cause harm
and corruption in society. When they are advised not to spread corruption or
mischief, they justify their actions by claiming they are actually working to
improve or reform things. This self-righteous attitude is condemned in the
Quran because it reflects their deceit and lack of true understanding of what
constitutes righteousness.
The message in this verse is a
reminder of the importance of sincerity in one's actions and the danger of
hypocrisy. True reformers are those who align their actions with the values of
justice, morality, and peace as outlined in the Quran, not those who disguise
their harmful deeds under the pretense of doing good.
"اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے
ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔"
Explanation
(Urdu):
یہ آیت منافقین اور ان لوگوں کے
بارے میں ہے جو خود کو نیک اور صالح ظاہر کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں ان کے اعمال
زمین میں فساد اور بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔ جب انہیں فساد پھیلانے سے روکا جاتا ہے،
تو وہ اپنی بری حرکتوں کو اصلاح کا نام دے کر اپنی صفائی پیش کرتے ہیں۔ قرآن مجید
میں اس قسم کے رویے کی سخت مذمت کی گئی ہے کیونکہ یہ جھوٹ اور فریب پر مبنی ہوتا
ہے اور اصل نیکی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
اس آیت کا پیغام یہ ہے کہ عمل میں
اخلاص اور نیک نیتی ضروری ہے، اور نیکی کا دعویٰ وہی درست ہے جس کے ساتھ عدل،
اخلاقیات، اور امن کے اصول ہوں۔ جو لوگ اپنی خراب کاریوں کو بھلائی کے طور پر پیش
کرتے ہیں، وہ دراصل فریب کے مرتکب ہیں۔
تفسیر (اردو):
یہ آیت سورہ البقرہ کی ہے
اور یہ ان منافقین کے بارے میں نازل ہوئی جو بظاہر نیکی کا دعویٰ کرتے تھے مگر
حقیقت میں زمین میں فساد پھیلاتے تھے۔
پس منظر:
جب نبی کریم ﷺ نے مدینہ میں اسلامی
ریاست کی بنیاد رکھی تو منافقین کی ایک جماعت ظاہر ہوئی، جو بظاہر اسلام قبول کر
چکے تھے مگر دل سے ایمان نہیں لائے تھے۔ یہ لوگ اسلامی معاشرے میں خرابیاں اور
فساد پھیلانے کی کوشش کرتے تھے، مگر جب ان کو منع کیا جاتا یا ان کی اصلاح کی جاتی،
تو وہ اپنے فساد کو "اصلاح" کا نام دے کر اپنی صفائی پیش کرتے تھے۔
الفاظ کی وضاحت:
·
لَا تُفْسِدُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ: اس کا مطلب یہ ہے
کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔ فساد سے مراد ہر وہ عمل ہے جو انسانوں کے درمیان بگاڑ
پیدا کرے، جیسے جھوٹ، دھوکہ دہی، ظلم، اور ناانصافی۔
·
قَالُوٓا۟ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ: جب ان سے کہا
جاتا ہے کہ فساد نہ کرو تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔
یعنی وہ اپنی بری حرکتوں کو اصلاح اور بھلائی کا رنگ دے کر اپنے غلط اعمال کا دفاع
کرتے ہیں۔
تفسیر:
اس آیت میں منافقین کے رویے کو بے
نقاب کیا گیا ہے۔ منافقین خود کو صالح اور مصلح (بھلائی کرنے والے) ظاہر کرتے تھے،
لیکن ان کے اعمال دراصل اسلامی معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والے تھے۔ جب ان سے کہا
جاتا کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ، تو وہ دعویٰ کرتے کہ ہم تو اصلاح کر رہے ہیں۔ ان
کا یہ دعویٰ جھوٹ پر مبنی تھا کیونکہ ان کا مقصد اصلاح نہیں تھا بلکہ اسلام اور
مسلمانوں کو نقصان پہنچانا تھا۔
منافقین کا فساد: منافقین کا فساد
مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا تھا، جیسے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا، افواہیں
پھیلانا، اور مسلمانوں کے دشمنوں سے خفیہ تعلقات رکھنا۔ یہ لوگ بظاہر اسلامی
تعلیمات کی پیروی کا دعویٰ کرتے تھے لیکن ان کے دل میں کھوٹ اور دغا ہوتا تھا۔
اصلاح اور فساد کی حقیقت: اس آیت سے یہ سبق
ملتا ہے کہ ہر وہ کام جسے انسان نیکی یا اصلاح کا نام دے کر انجام دے، ضروری نہیں کہ
وہ حقیقی اصلاح ہو۔ اصل اصلاح وہی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایات اور رسول اللہ
ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ہو۔ اگر کوئی عمل لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کو بگاڑے اور
معاشرے میں فتنہ و فساد پھیلائے، تو وہ فساد ہے، چاہے کوئی اسے اصلاح کا نام دے۔
سبق:
اس آیت کا اہم پیغام یہ ہے کہ انسان
کو اپنے اعمال کا بغور جائزہ لینا چاہیے اور خود کو دھوکہ میں نہیں رکھنا چاہیے۔
صرف نیکی کا دعویٰ کرنے سے انسان نیک نہیں بن جاتا، بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق عمل
کرنے اور معاشرے میں امن و انصاف کو فروغ دینے سے حقیقی اصلاح ہوتی ہے۔ منافقت اور
جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کو اللہ کے سامنے رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
No comments